يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
” تمہارے سامنے بہانے پیش کریں گے، جب تم ان کی طرف واپس لوٹو گے، فرما دیں کہ بہانے مت کرو، ہم تم پر ہرگز نہیں یقین کریں گے، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمھارے متعلق بتا چکا ہے۔ اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمھارا عمل دیکھیں گے، پھر تم ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جاننے والے اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ تمھیں خبر دے گا جو کچھ تم عمل کرتے رہے تھے۔“ (٩٤)
فہم القرآن : (آیت 94 سے 95) ربط کلام : دسویں پارے کے آخر اور اس آیت سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ جن منافقوں نے غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے۔ اب وہ جہاد کی فضیلت اور دین کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ لہٰذا یہ لوگ آپ کی واپسی پر معذرت کریں تو ان کی معذرت قبول نہ کی جائے۔ منافقوں کا اندازہ اور ان کی تمنا یہ تھی کہ سلطنت روما کا فرماں روا مسلمانوں کی طاقت کو اس طرح کچل ڈالے گا کہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے لیکن روم کے لشکر مسلمانوں کی تاب نہ لا سکے اور انھوں نے اپنی پسپائی میں خیر سمجھی۔ نبی اکرم (ﷺ) نے رومیوں کا تعاقب کرنے کی بجائے کچھ دن محاذ پر قیام فرمایا اور بالآخر لشکر اسلام کو واپسی کا حکم دیا۔ منافقین کو اس صورت حال کی خبر پہنچی تو انھوں نے آپ (ﷺ) کی واپسی پر روایتی حیلہ سازیوں سے آپ کی خدمت میں معذرتیں پیش کرنا شروع کیں۔ ادھر راستہ میں ہی رب کریم نے اپنے رسول کو آگاہ فرمادیا کہ آپ جوں ہی مدینہ ورود مسعود فرمائیں گے تو منافق ٹولیوں کی صورت میں آپ کے سامنے اپنی معذرتیں پیش کریں گے۔ لیکن اب ان کی کسی معذرت کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے بلکہ منافقین کو کھلے الفاظ میں بتلایا جائے کہ میرے رب نے مجھے تمہاری سازشوں اور ملمع سازیوں سے پوری طرح آگاہ فرما دیا ہے لہٰذا تمہارے کسی عذر اور بہانہ کو قبول نہیں کیا جائے گا البتہ تم آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کی کوشش کرو تو اللہ اور اس کا رسول تمہارے کردار کو دیکھیں اور جانچیں گے کہ تم اپنے قول و فعل میں کتنے سچے ثابت ہوتے ہو۔ اے منافقو! نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رض) سے کوئی بات چھپا سکتے ہو لیکن تم اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔ دنیا میں اللہ تمہیں مہلت دیے ہوئے ہے لیکن آخرت میں تم اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ وہ تمہاری ایک ایک حرکت اور بات سے تمہیں آگاہ کرے گا اور اسی کے مطابق تمہیں سزا دی جائے گی۔ اس انتباہ کے ساتھ منافقوں کو پھر ایک موقع دیا گیا ہے۔ کہ وہ سچی توبہ کریں اور اپنے کردار کو بہتر بنائیں۔ البتہ اس موقعہ پر ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ خواہ یہ کتنی عاجزی کے ساتھ قسمیں اٹھائیں اور یقین دہانی کروائیں۔ ان سے اعراض ہی کرنا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ دل کے برے اور کردار کے گندے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم ہے جس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ منافق کی نشانیاں : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمِنَ خَانَ) [ رواہ مسلم : باب الکبائر وعلامات النفاق] ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ ( مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ ) (1) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے (2) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے (3) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم کہتی رہے گی، کہ کچھ اور بھی؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ اور جہنم کہے گی بس! بس! تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم! جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ منافق جھوٹے عذر بہانے پیش کرتے ہیں۔ 2۔ منافق قسم کو بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ 4۔ ہرقسم اٹھانے والا سچا نہیں ہوتا۔ 5۔ منافق عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے گندہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ غیب وحا ضر کو جاننے والا ہے : 1۔ اللہ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ:94) 2۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل :19) 3۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک :13) 4۔ اللہ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد :10) 5۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر :22) 6۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے؟ (البقرۃ:77) 7۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں سے بھی واقف ہے؟ (التوبۃ:78)