لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
” لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اسکے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ (٨٨)
فہم القرآن : (آیت 88 سے 89) ربط کلام : منافقین کے مقابلہ میں مخلص مسلمانوں کا کردار۔ منافق اپنے ایمان میں غیر مخلص ہونے کی وجہ سے جہاد اور نیکی کے کاموں میں پیچھے رہنا پسند کرتا ہے اس کے مقابلے میں حقیقی مسلمان ہر وقت اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں رہتا ہے یہاں تک کہ وقت آنے پر وہ اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں خیر ہی خیر ہے اور آخرت میں فلاح اور کامیابی پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہاں تک کہ نبی معظم (ﷺ) کی ذات کا معاملہ، آپ نیکی کے معاملہ میں سب سے آگے اور جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ولولہ رکھتے تھے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ أَرْوَاحَہُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّۃِ تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا وَتَأْوِی إِلَی قَنَادِیلَ مِنْ ذَہَبٍ مُّعَلَّقَۃٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ فَلَمَّا وَجَدُوا طیبَ مَأْکَلِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ وَمَقِیلِہِمْ قَالُوا مَنْ یُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَاءٌ فِی الْجَنَّۃِ نُرْزَقُ لِئَلَّا یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلَا یَنْکُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ فَقَال اللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللّٰہِ﴾إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ] ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب تمھارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹوں میں رکھ دیا وہ بہشت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم بہشت میں زندہ ہیں اور کھانا کھاتے ہیں تاکہ وہ بھی بہشت کے حاصل کرنے میں بے رغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمھاری خبر میں پہنچاؤں گا پس نازل کی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھانا کھلائے جاتے ہیں۔“ جنت کے درخت کا طول و عرض : (عَنْ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیر الرَّاکِبُ فِی ظِلِّہَا مائَۃَ عَامٍ لَا یَقْطَعُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سو سال تک سوار چلتا رہے تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ 2۔ مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں نہریں جاری ہیں۔ 3۔ جسے جنت عطا کردی گئی اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ تفسیر بالقرآن : عظیم کامیابی کیا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ کامومنین کو ہمیشگی والی جنت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ:89) 2۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو باغات عطا کرنا اور اپنی رضا مندی کا سر ٹیفکیٹ عطا فرمانا۔ (التوبۃ:72) 3۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کے ساتھ ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا فرمانا۔ (التوبۃ:111) 4۔ اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانا اور اسی سے ڈرنا اور اللہ تعالیٰ کا انھیں بشارت سے نوازنا۔ (یونس : 63تا64) 5۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے برائی سے بچ جانا۔ (المؤمن :9) 6۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنا اور ہمیشہ رہنے والے باغات اور رہائش گاہوں کا وعدہ فرمانا۔ (الصف :12)