سورة التوبہ - آیت 79

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے ایمانداروں پر جو لگ طعن کرتے ہیں اور لوگوں پر جو اپنی محنت کے سواکچھ نہیں پاتے وہ انہیں مذاق کرتے ہیں اللہ ان سے مذاق کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ (٧٩)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین نہ صرف خود زکوٰۃ ا ور صدقات نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر غلط الزام لگاتے اور ان کی نیت پر شک کرتے تھے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں غزوۂ تبوک کے حوالے سے منافقین کی بری عادات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) کے زمانے کے بدبخت منافقوں کی حالت یہ تھی کہ نہ صرف اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے سے خود پیچھے رہتے بلکہ اپنی برادری کے مخلص صحابہ کی دل شکنی بھی کرتے تھے۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے تبوک کے معرکہ کا ایک مہینہ پہلے سر عام اعلان فرمایا تھا۔ اور لوگوں کو چوکنا کیا کہ ہم پہلی دفعہ عرب کی سرحد سے باہر اور دنیا کی منظم ترین فوج کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہر قسم کی تیاری کے ساتھ دفاعی فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیجیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے اپنی طاقت سے بڑھ کر دامے درمے حصہ نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ ایک صحابی جن کا نام ابو عقیل (رض) تھا اس نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور صبح اس کے بدلے ملنے والی تقریباً دو کلو کھجوریں لے کر اللہ کے نبی (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیں۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اسے برکت کی دعا دی۔ یہ ماجرا دیکھ کر منافقین نے باہر جا کر آوازے کسے کہ اب تو ضرور سلطنت رومہ ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے صدقہ کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اس طرح انھوں نے صحابہ کرام (رض) کی جنگی تیاریوں کا تمسخر اڑا دیا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے غیرت میں آکر فرمایا ہے کہ یہ مسلمانوں سے مذاق نہیں کرتے درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انھیں تمسخر کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ چنانچہ مسلمان جب تبوک سے کامیاب ہو کر واپس آئے تو منافقین ذلت اور شرمندگی کی وجہ سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ پورے عرب کے سامنے ذلت کا نشان بن کر رہ گئے۔ (عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ (رض) قَالَ أُمِرْنَا بالصَّدَقَۃِ قَالَ کُنَّا نُحَامِلُ قَالَ فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِیلٍ (رض) بِنِصْفِ صَاعٍ قَالَ وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَیْءٍ أَکْثَرَ مِنْہُ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ إِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَدَقَۃِ ہَذَا وَمَا فَعَلَ ہَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِیَاءً فَنَزَلَتْ ﴿الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَا یَجِدُونَ إِلَّا جُہْدَہُمْ﴾ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب الحمل باجرۃ تیصدق بھا] ” حضرت ابو مسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری کیا کرتے اور اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (رض) اس مزدوری سے آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی عبدالرحمن بن عوف بہت سامال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے تو ریاکاری کے لیے بھاری مال خیرات کیا ہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔“ مسائل : 1۔ منافق مومنوں کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ 2۔ منافق مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ 3۔ قیامت کے دن اللہ منافقوں سے مذاق کرے گا۔ 4۔ منافقوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ اور اس کے رسول کو مذاق کرنے والوں کی سزا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبۃ:79) 2۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔ (الحجر :95) 3۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے کی وجہ سے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا۔ (یٰسٓ:31) 4۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کو ڈھیل دیتا رہا اور پھر انھیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ (الرعد :32) 5۔ اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو تمسخر کی سزا نے آگھیر ا۔ (الانعام :10) 6۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف :106)