فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
” پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور ہم جاننے والوں کے لیے کھول کر آیات بیان کرتے ہیں۔“ (١١)
فہم القرآن : ربط کلام : اسلام کی وسعت ظرفی اور عفو درگزر کی بے مثال پالیسی۔ اسلام ہی ایسا دین ہے جس نے انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بار بار توبہ کا موقع فراہم فرمایا ہے اور یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی فرد یا قوم جب بھی اپنے جرائم سے سچی توبہ کرلے تو انھیں صرف اللہ تعالیٰ ہی معاف نہیں کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ مسلمان بھی اسے معاف کردیں۔ مکہ میں نبی اکرم (ﷺ) کی ذات آپ کے اعزاء و اقرباء اور صحابہ کرام (رض) پر مشرکین نے مظالم کی انتہا کی مگر جب بھی ان میں سے کوئی تائب ہو کر حلقہ اسلام میں داخل ہوا تو نہ صرف اسے معاف کردیا گیا بلکہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی محبت کا اظہار ہوا کہ جس سے کل کا ظالم آج اسلام اور مسلمانوں پر جان نچھاور کرنا اپنے لیے دو جہانوں کی سعادت سمجھنے لگا۔ بدر، احد، احزاب اور دوسرے مواقعوں پر مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونتنے والے جب بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو انھیں پورا، پورا اعزاز دیا گیا اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوگی جنھوں نے احد کے موقعہ پر آپ (ﷺ) کے چچا حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ کیا تھا۔ آپ نے انھیں بھی معاف فرما دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے مسلمانوں کا جنگ و قتال کبھی بھی اپنی ذات کے لیے نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کافر کے لیے صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں۔ بلکہ کلمہ کے اقرار کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی یاد رہے نماز حقوق اللہ ادا کرنے کی ضمانت ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی ترجمان ہے۔ جو شخص ان کا خیال رکھے گا اس کے لیے رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرناآسان ہوجائے گا جہاں تک کہ اسلام میں توبہ کرنے کا تعلق ہے یہ تو حالت جنگ اور حالت نزع میں بھی قبول ہوجاتی ہے۔ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ (رض) یَقُولُ بَعَثَنَا رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) إِلَی الْحُرَقَۃِ فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَہَزَمْنَاہُمْ وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْہُمْ فَلَمَّا غَشِینَاہُ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَکَفَّ الْأَنْصَارِیُّ فَطَعَنْتُہٗ بِرُمْحِی حَتّٰی قَتَلْتُہٗ فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ یَا أُسَامَۃُ أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قُلْتُ کَانَ مُتَعَوِّذًا فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِکَ الْیَوْمِ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث النبی اسامۃ] ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے ہمیں حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دو چار کیا۔ میں اور ایک انصاری نے دشمن کے ایک آدمی پر غلبہ پایا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ انصاری نے یہ سنتے ہی اپنے ہاتھوں کو روک لیا مگر میں نے اسے اپنا نیزا مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر ڈالا۔ جب ہم نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے سامنے تفصیل بیان کی۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ میں نے عرض کی کہ وہ تو مجھ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہا تھا۔ آپ (ﷺ) اپنے الفاظ بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش میں نے آج سے پہلے اسلام قبول نہ کیا ہوتا۔“ (یعنی مسلمان ہوتے ہوئے مجھے یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ) (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجنائز، باب فی التلقین] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس کا آخری کلام لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ مسائل : 1۔ توبہ کرنے سے شرک و کفر بھی معاف ہوجاتا ہے۔ 2۔ ایمان لانے کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ایمان لانے کا عملی ثبوت ہے۔ 3۔ دین باہمی اخوت کے لیے مضبوط ترین رشتہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : مسلمانوں کے باہمی تعلقات : 1۔ مومن آپس میں بھائی ہیں اگر وہ جھگڑپڑیں تو ان میں صلح کروادو۔ (الحجرات :10) 2۔ محمد (ﷺ) اور آپ کے ساتھی آپس میں بڑے رحمد ل اور کفار پر بڑے سخت ہیں۔ (الفتح :29) 3۔ اے ایمان والو! اگر تم مرتد ہو جاؤتو اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو آپس میں محبت کرنے والے ہوں۔ (المائدۃ:54)