سورة البقرة - آیت 115

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور علم والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ آیات میں مساجد کے احترام و اکرام اور ان کا مقصد بیان فرمایا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے۔ یہاں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ صرف مسجدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری زمین مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اس کی توجہ زمین کے چپے چپے اور ذرّے ذرّے پر ہے۔ اسلام حقیقت پسندی کا مذہب ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ شعائر کا احترام اور خیال رکھنے کے باوجود آدمی کی نظر ہمیشہ حقائق اور اصلیت پر رہنی چاہیے۔ کیونکہ قومیں جب ظاہر پرستی میں مبتلا ہوجائیں تو ان میں حقیقی روح اور جذبہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔ یہی صورت حال عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہوئی جس کی وجہ سے عیسائیوں نے بیت المقدس میں اس جگہ کو زیادہ افضل قرار دیا جس مشرقی کونے میں حضرت مریم (علیہا السلام) نے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیا تھا اور جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی جسے بیت اللحم کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہودیوں نے مغربی جانب کو اپنے لیے زیادہ محترم قرار دیا کہ ہیکل سلیمان یہاں واقع ہے۔ مسلمانوں پر بھی ایسا دور گزرا ہے کہ جب بیت اللہ کو فکری اور جغرافیائی طور پر تقسیم کردیا گیا۔ ملک عبد العزیز آل سعود کی حکومت سے پہلے ترکوں کی طرف سے مکہ کے گورنر جسے شریف مکہ کہا جاتا ہے اس کے دور میں بد قسمتی سے اتحاد کے نام پر بیت اللہ میں چار مصلے بچھا دیے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حطیم کی طرف کھڑے ہونے والے اس لیے دوسرے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے کہ ہم فلاں ہیں اور ہماری جائے نماز زیادہ افضل ہے۔ ان کے مقابلے میں رکن یمانی کی جانب کھڑے ہونے والے اپنے آپ کو زیادہ حق پر سمجھتے کہ ہماری جانب حجر اسود کی طرف ہے۔ علی ھٰذا القیاس افسوس ! مرکز توحید و اتحاد میں بھی ملت تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہاں وضاحت فرمائی گئی ہے کہ بے شک تمہارے لیے ایک قبلہ مقرر کردیا گیا ہے جو تمہارے لیے یکسوئی اور اتحاد کی علامت بنایا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی توجہ اس میں محدود نہیں ہوگی۔ اس کی توجہ ہر جانب یکساں اور متواتر ہوا کرتی ہے۔ انسان کوتاہ نظر اور کم ظرف ہے۔ ورنہ اللہ کے فضل وعطاکی وسعتیں اور عفو ودرگزر کی جہتیں بے مثال ولا محدود ہیں۔ مسائل: 1۔ انسان جدھر بھی منہ کرے اللہ تعالیٰ کی اس طرف توجہ ہوتی ہے۔ 2۔ اللہ مشرق و مغرب کا مالک اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ نوٹ : قبلہ کے بارے میں بحث دوسرے پارے کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔