سورة الانفال - آیت 37

لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے الگ کردے اور ناپاک کے بعض کو بعض پر رکھے اور اسے اوپر تلے ڈھیر لگادے، پھر اسے جہنم میں ڈال دے یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔“ (٣٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرک اور کافر فکر و عمل کے اعتبار سے گندے لوگ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے مومنوں اور مشرکوں کے درمیان ایک امتیاز پیدا کرنا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسی امتیاز کی بناء پر انھیں الگ کردیا جائے گا۔ انسان جب کفر و شرک کا وطیرہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ فکری طور پر منتشر اور عملی طور پر خبیث اور گندا ہوجاتا ہے قرآن مجید میں عقیدۂ کفر و شرک کو شجرۂ خبیثہ کہا ہے اور شرک کے مرتکب شخص کو نجس قرار دیا ہے۔ (ابراہیم :26) عربی میں گندی، پلید اور بری چیز کو خبیث کہا جاتا ہے۔ شیطان ہر قسم کی خباثت کا منبع ہے اس بنا پر اس کا دوسرا نام خبیث ہے۔ خبیث کے مقابلہ میں طیب کا لفظ آیا ہے۔ عقیدۂ توحید کو سورۃ ابراہیم میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے۔ جس کی جڑیں مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ یہ ایسا سدا بہار درخت ہے جو ہر آن پھل دیتا ہے۔ اس عقیدہ کے تقاضے پورے کرنے والا شخص طیب ہوگا۔ جس کا معنیٰ پاک، عمدہ اور بہترین ہے۔ نبی محترم نے حلال و حرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ طیب ہے اور وہ طیب مال کو پسند کرتا ہے گویا کہ طیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یہاں کافر و مشرک کو خبیث اور مسلمان کو طیب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان امتیاز کرے گا۔ یہ امتیاز اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ اسلام کے نفاذ سے یہ امتیاز دنیا میں مدت تک قائم رہا لوگوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ قرآن کے ماننے اور عقیدہ توحید اختیار کرنے والوں کا کیا کردار ہوتا ہے اور خدا کے باغیوں کے عقیدہ و عمل سے دنیا میں کیا غلاظت اور تعفن پیدا ہوتا ہے اسی امتیاز کی بنا پر آخرت میں مومنوں اور مشرکوں کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جہنم میں مشرکوں اور کافروں کو ایک دوسرے کے اوپر جمع کرے گا اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے نقصان میں رہیں گے۔ ایک دوسرے کے اوپر جمع کرنے سے مراد جہنم کے طبقات ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنمیوں کو ذلیل کرنے اور سزا کے طور پر ایک دوسرے پر پھینکا جائے۔ ﴿أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَّا یَسْتَوُونَ﴾[ سورۃ السجدۃ:18) ” کیا مومن ایسے ہی ہوتا ہے جیسے فاسق ؟ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔“ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا ﴾[ النساء :145] ” بلاشبہ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور تو ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ 2۔ مشرک لوگ جہنم میں اکٹھے پھینکے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور مومن دنیا اور آخرت میں برابر نہیں ہو سکتے : 1۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ ( التوبۃ:28) 2۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ :18) 3۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برا بر نہیں رکھے گا۔ (القلم : 35۔36) 4۔ اندھا اور بینا برابر اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے اور برے اعمال کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن :58) 5۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے جنتی ہی کامیاب ہیں۔ (الحشر :20) 6۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ (حٰم السجدۃ:34) 7۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو تعمیر کرنے کو ان لوگوں کے برابرسمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہو سکتے۔ (التوبۃ:19)