وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ
” اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں۔ (٦٥)
فہم القرآن: (آیت 65 سے72) حضرت ھود (علیہ السلام) : حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندو بالا پہاڑ تھے۔ اس کے باسی جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انھوں نے پہاڑ تراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : 1۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف :69) 2۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر 6تا8) 3۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء :133) 4۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء 129تا133) 5۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے۔ (الاعراف :70) 6۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون :33) 7۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون :37) یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰمٓ السجدۃ :15) حضرت ھود (علیہ السلام) کے خطبات کے اقتباسات : 1۔ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود اور مشکل کشا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اس کی نافرمانیوں سے بچتے رہو۔ میں تمھارا خیر خواہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام پوری امانت داری سے پہنچارہا ہوں۔ سورۃ ھود میں ان کے خطاب کے اقتباسات یوں ذکر کیے گئے ہیں۔ 2۔ اے میری قوم اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے تمھیں اپنے رب کا پیغام پوری خیر خواہی اور دیانت داری کے ساتھ پہنچا دیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو وہ تمھیں مزید طاقت ور اور مال دار بنائے گا۔ ہاں یاد رکھو تمھاری اصلاح اور فلاح پر میں تم سے کسی صلہ اور اجر کا خواہش مند نہیں ہوں۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے۔ (ھود 50تا52) قوم کا رد عمل اور حضرت ھود (علیہ السلام) پر الزامات : 1۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف :66) 2۔ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون :33) 3۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (المؤمنون :38) 4۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء :137) 5۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء :136) 6۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود :54) 7۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : 138تا139) 8۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ۔ (الاحقاف :22) حضرت ھود (علیہ السلام) کا قوم کو بار بار سمجھانا : 1۔ جھوٹے معبودوں اور خود ساختہ ناموں کے بارے میں مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو۔ (الاعراف :71) 2۔ شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ (الاعراف :71) 3۔ تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا۔ (ھود :57) 4۔ میرا اللہ پر بھروسہ ہے اس کے قبضہ میں ہر جاندارکی پیشانی ہے۔ (ھود :56) 5۔ گواہ رہو میں شرک سے بیزار ہوں تم سب مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ھود : 54تا55) حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب : 1۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المؤمنون :39) 2۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ :7) (الشعراء :20) 3۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف :24) 4۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ:7) 5۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : 41،42) 6۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (السجدۃ : 16، ھود :59) 7۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف :72) 8۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود :58) مسائل : 1۔ قوم نوح کے بعد قوم عاد دنیا میں آئی۔ 2۔ عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا۔ 3۔ قوم عادنے اللہ کی توحید ماننے کی بجائے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا۔ 4۔ حضرت ہود علیہ السلامنے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ 5۔ اتمام حجت کے بعد عذاب نہیں ٹلاکرتا۔ تفسیر بالقرآن : حضرت ھود (علیہ السلام) کا تذکرہ : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کیطرف حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ (الاعراف :65) 2۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ (ھود :53) 3۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کی تکذیب کی (ھود :60) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو عذاب سے محفوظ فرمایا۔ (ھود :58) حضرت ھود (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں 8بار تذکرہ ہوا ہے۔