سورة البقرة - آیت 94

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آپ فرما دیں کہ اگر آخرت کا گھر اللہ کے نزدیک تمہارے ہی لیے مختص ہے اور کسی کے لیے نہیں تو آؤ اپنی سچائی کے ثبوت میں موت کی تمنا کرو

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن : (آیت 94 سے 96) ربط کلام : یہود یوں کے من گھڑت عقیدہ اور خود ساختہ دعویٰ کا جواب اور دنیا کے بارے میں ان کی حرص۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم اللہ کے محبوب اور انبیاء کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ہمارے لیے ہی بنایا اور سجایا ہے بالفرض اگر ہمیں جہنم میں جانا بھی پڑا تو یہ چند دنوں کے لیے جانا ہوگا بالآخرہم جنت کے لیے اور جنت ہمارے ہی لیے ہے۔ ہم ہی اس کے وارث ہوں گے۔ وہ یہ بات اتنی شدّو مد کے ساتھ کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے عوام الناس یہ سمجھ بیٹھے کہ جنت میں جانے کے لیے یہودی ہونا از حد ضروری ہے۔ اس کے بغیر کسی کو جنت کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔ یہ یہودیوں کے باطل عقیدہ کے اثرات ہیں کہ جس بنا پر مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جس کا خیال ہے کہ آدمی کے عمل جیسے بھی ہوں جنت میں جانے کے لیے بزرگوں سے نسبت اور محبت ہی جنت میں داخلے کی ضمانت ہے۔ لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے چیلنج دیا گیا ہے کہ بزعم خود اگر تم جنت کے وارث اور اللہ کے پیارے ہو تو پھر تمہیں موت سے ڈرنے کی بجائے اس کا آرزو مند ہونا چاہیے تاکہ تم اپنے رب سے ملاقات کا شرف اور جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکو۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم موت کے تصور سے کانپتے اور دنیا کی لذّت کی خاطر ہر ذلت برداشت کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہو۔ تم اپنے نظریے اور جنت کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو حالانکہ جس آدمی کے سامنے ایک مقصد اور منزل ہوتی ہے وہ تو اس کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ تم تو موت کے بارے میں مشرکوں سے بھی زیادہ ڈرتے ہوحالانکہ زندگی ہزار سال ہو یا اس سے زیادہ۔ وہ مجرم کو خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتی اور نہ ہی زندگی کے طویل ہونے سے انسان کا کوئی گوشہ حیات خدائے علیم و بصیر سے اوجھل ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر رکھنے والا اور تمہاری جلوت و خلوت سے خوب واقف ہے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}یُوْشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ فَقَالَ قَائِلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْوَھْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ) (رواہ ابوداوٗد : کتاب الملاح، باب فی تداعی الأمم علی الإسلام) ” حضرت ثوبان {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں جیسے میزبان کھانے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ پوچھنے والے نے عرض کی : کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی آپ نے فرمایا : بلکہ تم اس وقت بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے تنکوں جیسی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رعب تمہارے دشمن کے دلوں سے نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ پوچھنے والے نے پوچھا : اللہ کے رسول وہن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ {رض}یا آپ {ﷺ}کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور گرفت کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ جہاں تک بزرگوں سے نسبت اور محبت کا تعلق ہے اگر ان کے صالح اعمال وتعلیمات کو نہ اپنایا جائے تو یہ نسبتیں اور محبتیں کوئی کام نہ آئیں گی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {}حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (رواہ البخاری : باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ {رض}فرماتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ {ﷺ}کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ شرک اور دنیا کی بے جا محبت آدمی کو بزدل بنادیتی ہے۔ 2۔ مشرک اور یہودی دنیا کے بارے میں سب سے زیادہ حریص ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: موت یقینی ہے : 1۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 2۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء :78)  3۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :24) 4۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران :144)  5۔ رسول اللہ {ﷺ}بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر :30)