وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
” اور ہم اسی طرح آیات کو پھیرپھیر کر بیان کرتے ہیں اور تاکہ وہ کہیں تو نے پڑھا ہے اور تاکہ ہم اسے ان لوگوں کے لیے واضح کردیں جو جانتے ہیں۔
ف 5 یہاں تک الوہیت کا اثبات تھا اب اس کے بعد اثبات نبوت کا بیان شروع ہوا۔اس آیت میں آنحضرت (ﷺ) کی نبوت پر شبہات کو بیان کیا ہے ۔کبھی مومنوں کو خوش خبری کبھی کافروں کو تنبیہ کبھی گزشتہ قوموں کے واقعات کے ذریعے نصیحت اور کبھی اوامر ونواہی کا بیان تاکہ جو لوگ عقل و فہم رکھتے ہیں وہ ان کے ذریعے راہ ہدایت پائیں اور مخالفین پر حجت قائم ہو ف 6 یعنی ہم تصیرف آیات یعنی پھیر پھیر کر اس لیے بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک طرف آیات کے ذریعہ عقل وفہم والے راہ ہدایت پائیں گے تو دوسری طرف ضدی اور آباؤ اجداد کے رسم و رواج سے چمٹے رہنے والے کا فرو مشرک آپ (ﷺ) سے یہ کہہ کر گمراہ ہوں گے کہ یہ قرآن جسے تم ہمارے سامنے بڑھ رہے ہو تم پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل نہیں ہوا بلکہ تم نے اسے کسی سے سیکھ لیا، ہے مشرکین کے اس قسم کے کئی اقوال دوسری آیات میں مذکور ہیں۔ (رازی قرطبی) ف 7 آیتوں کوپھیرپھیر کر بیان کرنے کی پہلی حکمت یہ بیان کی ہے کہ کفار اور معاند یہ کہیں کہ تم نے کسی سے یہ قرآن بذریعہ مذاکرہ اور مدارسہ سیکھ کر جمع کرلیا ہے تاکہ اس طرح زیادہ گمراہوں۔اب یہاں دوسری حکمت بیان کی تاکہ اہل علم کے لیے بیان اور فہم حاصل ہو۔ (رازی)