سورة الانعام - آیت 104

قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بہت سی نشانیاں آ چکیں، پھر جس نے سمجھ لیا تو اس کے اپنے لیے ہے اور جو اندھا رہا تو اسی پر وبال ہے اور میں تم پر کوئی نگران نہیں۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 یعنی آنکھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ اس کو دیکھ لے مگر جو وہ آپ کو دکھادے اس واسطے کے لطیف ہے (مو ضح) متعدد احادیث میں ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کادیدار نصیب ہوگا، چنانچہ یہ اہل سنت و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے بعض سلف نے لکھا ہے کہ ادراک کے معنی کسی چیز کی حقیقت کو پالینے کے ہیں اور رؤیت کے معنی آنکھ سے دیکھنے کے۔ پس ادراک اخص ہے اور رؤیت اعم اور اعم کے نفی سے اخص کی نفی لاز م نہیں آتی مطلب یہ ہے کہ آیت میں ادراک کی نفی ہے لہذا دنیا میں رؤیت ہوسکتی ہے جیساکہ آخرت میں ہوگی۔ حضرت عائشہ (رض) آنحضرت کے لیے رؤیت کی نفی کرتی تھیں اور ان کے استدلال کی بنیاد بھی اسی آیت پر تھی جوا قرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے مگر حضرت ابن عباس (رض)رؤیت کے قائل تھے اور کبھی وہ یہ بھی فرماتے کہ آنحضرت (ﷺ) نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے (ابن کثیر) مزید دیکھئے سورۃ النجم (آیت 11۔13) ف 2 یعنی غور وفکر کر کے ایمان لائے، ف 3 یعنی ان دلیلوں پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔ ف 4 کہ تمہیں تمہارے چاہنے یانہ چاہنے کے باوجود سیدھی راہ پر ڈال سکوں۔ ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا کام تو یہ ہے کہ بندوں تک اس کا پیغام پہنچا دوں سو وہ پہنچا رہا ہوں۔