قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
” فرما دیجیے کیا ہم اللہ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان اور ہم اپنی ایڑیوں پر پھیر دیے جائیں۔ اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے گمراہ کردیا ہے وہ زمین میں حیران ہے اس کے ساتھی ہیں جو اسے سیدھے راستے کی طرف بلارہے ہیں کہ ہمارے پاس آجاؤ۔ فرما دیں اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی اصل راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جہانوں کے رب کے فرمانبردار بن جائیں۔“
ف 6 یعنی توحید کی سیدھی راہ چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہوجائیں اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال ایسی ہوگی۔ آیت سے مقصود بت پرستوں کی تردید ہے اور آیتİ قُلۡ إِنِّي نُهِيتُ أَنۡ أَعۡبُدَ ٱلَّذِينَ..الخ Ĭ کی تاکید ہے (رازی) ف 7 مگر وہ ان کی کوئی بات نہ سنے اور ان بھتنوں کی بات پر چلتا رہے جس کے نتیجہ میں آخر کار تباہ وبرباد ہو (وحیدی) یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی دعوت دی۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت عبد الر حمن بن ابی بکر الصدیق کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت ابو بكر كے مسلمان هو جانے كے بعد ان كو كفر كی طرف بلاتے اور حضرت صدیق ان کو ایمان کی دعوت دیتے۔ بآ لا خر عبد الر حمن مسلمان ہوگئے مگر علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے ایک مرتبہ مروان نے اسی آیت کو عبدالر حمن کے بارے میں بطور طعن پڑھا تو حضرت عائشہ (رض) نے اس کی پر زور تردید کی اور فرمایا کہ آل ابوبکر کے بارے میں کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس سے ذم کا پہلو نکلتاہو۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی یہ تردید اصح اسناد اًواولیٰ بالقبول ہے۔ و اللہ اعلم۔ (فتح الباری تفسیر سورت احقاف )