وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
” اور ان لوگوں کے ذمے جو ڈرتے ہیں ان کے حساب میں سے کوئی چیز نہیں اور لیکن نصیحت کرنا ہے تاکہ وہ بچ جائیں۔
ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت ہوگئی تو مسلمانوں نے آنحضرت (ﷺ) کی خدمت میں عرض کی کہ اس قطع تعلق کی صورت میں ہم نہ مسجد میں جاسکتے ہیں اور نہ طواف کرسکتے ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان کے پا س بیٹھ سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو نصحیت کرتے رہو شاید کہ وہ اس قسم کی یا وہ گوئی سے باز آجائیں ( کبیر قرطبی) مگر اس صورت میں بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت سورۃ نسا İ إِنَّكُمۡ إِذٗا مِّثۡلُهُمۡۗ Ĭ سے منسوخ ہے (دیکھئے نسا آیت 140) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یعنی کوئی جانے کہ ایسے جاہلوں کو پاس نصیحت کو بھی نہ بیٹھے تو اپنے اوپر گناہ نہیں ان کے گمراہ رہنے کا لیکن نصیحت بہتر ہے کہ شاید ان کو ڈرہو تو نصیحت والا ثواب پاوے۔ (مو ضح) اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پرہیز گا اگر ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں تو کچھ حرج نہیں ہے لیکن ہم نے اعراض کا جو حکم دیا ہے تو اس نصحیت کے پیش نظر کہ شاید تمہارے اعراض کی وجہ سے وہ اس قسم کی بیہودگی سے باز آجائیں واللہ اعلم (ابن کثیر )