لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
” یقیناً آپ ایمان داروں کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائیں گے جو شرک کرتے ہیں۔ اور یقیناً آپ ایمانداروں کے ساتھ دوستی میں ان کو قریب پائیں گے جنہوں نے کہا ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں عالم اور راہب ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔“
ف 7 یہ ایک دائمی حقیقت ہے جس کا اس زمانہ میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے آج بھی جو دشمنی یہودیوں اور مشرکوں ( گو سالہ پرست اور موتیوں کے پچاریوں) کو مسلمانوں سے ہے وہ بہر حال عیسائیوں کو نہیں ہے ہاں جن عیسایئوں پر یہود غالب ہے وہ واقعی مسلمانوں کے سخت دشمن ہیں (م۔ ع ) ف 8 یہود اور نصاریٰکے درمیان جو تفاوت مذکور ہوا ہے یہ اس کی علت ہے جس طرح یہود کے عالم کو حبر کہا جاتا ہے جس کی جمع احبار ہے اسی طرح نصاریٰٰکے رئیس اور عالم قسیسین کہلاتے ہیں کہ نصاریٰمیں رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) کی بدعت رائج تھی۔ آنحضرت (ﷺ) نے (لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإِسْلامِ) فرماکر اسے ممنوع قراردے دیا بیشک یہود کی قساوت قلبی کی کے مقابلہ میں یہ ممدوح تھی مگر اس سےرہبا نیت کا مطلقا ممدوح ہونا لازم نہیں آتا (کبیر )