تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ
آپ ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو کافر ہیں یقیناً برا ہے جو انہوں نے اپنے لیے آگے بھیجا اللہ کی ان پر ناراضگی ہوئی اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
ف4 یعنی اسلاف کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد جو مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین سے دوستی رکھتے تھے۔ مجاہدؒ فرماتے ہیں منافقین مراد ہیں جنہوں نے مومنین کی بجائے کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے، (کبیر ابن کثیر ) ف 5 یعنی کفار (مشرکین مکہ) سے دوستی قائم کرکے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جو تیار کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہوا اور وہ آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق قرار پا ئے