إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
” بے شک ہم نے تورات اتاری، جس میں ہدایت اور روشنی تھی اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے ان لوگوں کے لیے جو یہودی اور ربانی اور عالم بنے، یہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے۔ تم ان لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور جو اللہ کی نازل شدہ کتاب کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی کافر ہیں۔“
ف 5 اس میں یہود کو تنبیه ہے جو حد رجم (سنگساری) کا انکار کرتے تھے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اسلاف۔ انبیا احبار اور علمائے ربانی کا مسلک اختیار کریں۔ (کبیر) بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک سینکڑوں پیغمبر ایسے گزرے ہیں جن پر کوئی نئی کتاب نازل نہیں کی گئی اور وہ اپنے زمانے میں لوگوں کو تورات ہی پر عمل کرنے کی نصیحت کرتے اور ان کے مابین اسی کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے تھے خود حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو کوئی نئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بعثت کا مقصد تورات ہی کی شریعت کو زندہ کرنا تھا۔ الذین ااسلموا یہ صفت مدح ہے اور ان انبیا ( علیہ السلام) کے کے مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ دین ابراہیم کے تابع تھے یا للہ تعالیٰ کے فرمانبر دار تھے (قرطبی) ف 1 آیت میں بِمَا ٱستُحۡفِظُواْکی با کا تعلق وَٱلرَّبَّٰنِيُّونَ وَٱلۡأَحۡبَارُ سے ہے مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا تویہ درویش اور تعلیم یافتہ لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے کیونکہ انبیا ( علیہ السلام) نے انہی کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ قرار دیا تھا اور ان کی ذمہ داری تھی کہ اس میں کوئ تحریف نہ ہونے پائے۔ اور شُهَدَآءَۚکے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تورات کے من عند الہ ہونے پر گواہ تھے بعض علما نے بِمَا ٱستُحۡفِظُواْ کی با کا تعلق يَحۡكُمُسے بیان کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔(قرطبی، کبیر) ف2 یعنی تم بھی اپنے انبیا اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تورات میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق بات کہنے اور محمد (ﷺ) کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کی پر وانہ کرو اور صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو (کبیر) ف 3 حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حکام پر اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں (1)خواہش کی پیرو ی نہ کریں(2) صحیح ٖفیصلہ کرنے میں کسی کی پروانہ کریں(3) اور رشوت لے کر غلط فیصلہ نہ کریں ،(قرطبی ) ف 4 یہ خطاب یہود سے ہے یعنی جب یہ عمداًتورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعوی ٰ کرنے کے درحقیقت یہ کافر ہیں مگر آیت کے الفاظ عام ہیں مسلمان حاکم پر کفر کا فتوی اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کرکے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے ایسے شخص کے کافر ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا اگلی آیات میں ایسے شخص کو ظالم اور فاسق بھی قرار دیا گیا۔ ( قرطبی)