يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
اے میری قوم ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں پر نہ پھر جاؤ، ورنہ نقصان پانے والے ہو کر لوٹوگے۔“
ف 4 یا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تمہارے دادا حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ اسے آپ کی اولاد میں سے اہل ایمان کی وارثت بناوں گا (ابن کثیر) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) جبل لبنان پر چڑھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھوْ ! جہاں تک تمہاری نظر پہنچے گی وہ ارض مقدس ہے اور تیری ذریت کی میراث ہے۔( کبیر) ف 5 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا بنی اسرائیل سے یہ خطاب اس موقع پر ہے جب وہ مصر سے نکلنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا میں خمیہ زن تھے اوران پر من وسلویٰ اتررہا تھا۔ (ابن کثیر) تاریخی اور اثری تحقیقات کے مطابق خروج کا زمانہ 440ا ق م ہے اور فلسطین پر فوج کشی کا زمانہ 1400 ق م ہے گواس مدت کے دوران میں موسیٰ ( علیہ السلام) نے خطاب کیا اور صحیفہ استثنأ کے بیان کے مطابق دریائے یرون کے اس پار اب کے میدان میں یه تقریر ارشاد فرمائی۔