سورة المآئدہ - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے آپ پر اللہ کا انعام یاد کرو جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا کہ تمہاری طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیے اور اللہ سے ڈرو۔ چاہیے کہ مومن اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔“ (١١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 عمومی انعامات کے بیان کے بعد اب خصوصی انعامات کا ذکر ہے۔ (کبیر) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں غزوہ ذات الرقاع میں) آنحضرتﷺ نے ایک جنگ میں پڑا و فرمایا صحابہ کرام (رض) سائے کی تلاش میں ادھر ادھر بکھر گئے آپ ﷺ بھی ایک درخت کے سائے میں لیٹ گئے اور تلوار درخت سے لٹکا دی۔ اتنے میں ایک بدو (غورثبن حارث) آیا اور تلوار سونت کر کہنے لگا اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی آپ ﷺ نے اسے اٹھا لیا اور اس بدو سے فرمایا اب بتاو تمہیں کو ب بچائے گا وہ کہنے لگا آپ بہترین پکڑنے والے نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ﷺ ہوں وہ کہنے لگا میں عہد کر تاہوں کہ نہ آپ ﷺ سے خود جنگ کرو نگا اور نہ آپ ﷺ سے جنگ کرنے والوں کی م دد کرونگا اس پر آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیت کے سلسلہ میں نبی ﷺ بن نضیر مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو ایک دوسرے کو سائے میں بٹھا یا اور آپس میں اسکیم بنائی کہ ان کے اوپر چٹان یا چکی کا پاٹ گرادیا جائے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خبردار کردیا اور آپ ﷺ نے وہاں سے اٹھ گئے (ابن کثیر، فتح البیان) ممکن ہے قرآن نے اس ایک آیت میں ان متعدد وقعات کی طرف اشارہ فرمادیا ہو اور یہ بھی ہوتا ہے کہا یک آیت ایک وقعہ کے متعلق نازل ہوتی ہے پھر یاد دہانی کے لیے دوسرے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے (المنار۔ قرطبی )