لَّٰكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
لیکن اللہ گواہی دیتا ہے اس کے بارے میں جو اس نے آپ کی طرف نازل کیا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ گواہ کافی ہے۔“
ف 1 یعنی وحی ہر پیغمبرپر آتی رہے پھر نیاکام نہیں۔ پر اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا اور اللہ تعالیٰ اس حق کو ظاہر کردے ۔چنانچہ ظاہر ہوا کہ جس قدر ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جواب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الہٰی ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کی صداقت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے۔ جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے یہاں بِعِلۡمِهِکا لفظ بطور محارہ استعمال ہو اہے۔ جیسے کہا جاتا ہے ہے فلاں نے یہ کتاب اپنے کامل علم وفضل کے ساتھ تصنیف کی ہے یعنی اپنے پورے علوم سے مدد لی ہے جو اس کتاب کے نہایت عمدہ ہونے کی دلیل ہے، (کبیر) یا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اپنے علم سے یعنی یہ سب جانتے ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپ (ﷺ) ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپ (ﷺ) پر یہ قرآن نازل کیا جاتا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم النفس ذات باری تعالیٰ سے الگ صفت ہے۔ ف 2وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ ای کفی اللہ والبا زائد ۃ (قرطبی) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ چند یہو دی نبی (ﷺ) کے پاس آئے آپ (ﷺ) نے ان سے فرمایا : اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم کو میرے رسول اللہ ہونے کا خوب علم ہے وہ کہنے لگے ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر)