رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
” رسول خو ش خبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے آنے کے بعد اللہ پر کوئی حجت اور الزام نہ رہ جائے اور اللہ نہایت غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ف 9 یعنی انبیا ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کرلیں۔ انہیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر ونافرمانی پر جمے رہیں انہیں ان کے غلط رویہ کے انجام بد سے متنبہ کریں تاکہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہوجائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذر پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طرف سے کوئی خوشخبری دینے یا تنبیہ کرنے ولا نہیں آیا اور یہ مقصد کتاب وشریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دی جائے یا تدریجا نازل ہو، بعثت کے اس مقصد اصلی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ کتاب کے حسب ضرورت تدریجا نازل کرنے سے تو یہ مقصد علی وجہ الا تم حاصل ہوتا ہے پھر ان کا یہ کہنا کہ مو سیٰ ( علیہ السلام) کی طرح یکباری گی کتاب لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں یہ محض ضد اور عناد ہے (کبیر )