إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
” یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی کی، جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد دوسرے انبیاء کی طرف وحی کی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (١٦٣)
ف 6 یہ ان کے شہبے (ان تنزل علیہم کتابا من السما کا اصل معاملہ دوسرے یعنی وحی اور دعوت الی ٰ الحق میں آنحضرتﷺ کا معاملہ دوسرے انبیا سے مختلف نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر جتنے انبیا ورسل ( علیہ السلام) ہوئے ہیں سب کو الگ الگ معجزات ملے اور تورت کے علاہ کسی کو بی یکبارگی کتاب نہیں دی گئی پھر جب یکبارگی کتاب ان پر نازل نہ کرنے سے ان کی نبوت پر حرف نہیں آتا تو آپ ﷺ کی نبوت کے لیے کیسے وجب قدح ہوسکتا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) صاحب شریعت نبی سب سے پہلے حضرت نوح ( علیہ السلام) تھے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) ہی وہ بی ( علیہ السلام) ہیں جن کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور رد شرکا وعظ بھی حضرت نوح ( علیہ السلام) سے شروع ہوا اس لیے سب سے پہلے ان کا نام ذکر کی ہے قرطبی۔، کبیر) وحی کے اصل معنی تو کسی مخفی ذریعہ سے کوئی بات سمجھا دینا کے ہیں اور ایحا (افعال) یعنی الہام بھی آجاتا ہے۔ (بحث کے لیے الشوریٰ آیت 51) ف 7 یعنی تم زبور کو تو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہو حالا نکہ وہ بھی حضرت داود ( علیہ السلام) پر تورات کی مثل تختیوں کی شکل میں نازل نہیں ہوئ تھی پھر قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا کیوں انکار کرتے ہو۔ (کبیر) موجود زیور میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں جن میں دعائیں، نصحیتیں اور تمثلیں مذکور ہیں رحلت وحرمت کے احکام نہیں ہیں (وحیدی) یعنی حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا جو اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ (دیکھئے سورت مقرہ آیت 253) پھر اگر موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کے اس شرف سے دوسرے انبیا پر طعن نہیں آسکتا تو تورات کا یک باری کی نزول کسے مو جب طعن ہوسکتا ہے (کبیر )