وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور بلکہ ان کے لیے اس کاشبیہ بنادیا گیا اور یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے عیسیٰ کے متعلق بڑے شک میں ہیں انہیں اس کے متعلق وہم کے پیچھے لگنے کے سوا کچھ پتہ نہیں اور انہوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا۔“
ف 8 یا یہودی انہیں محض طنزا’’ر سول اللہ‘‘کہا کرتے تھے اور پھر بزم خود قتل کرنے پر اس طرح کا فخر۔ یہ ان کا انتہائی سنگین جرم تھا۔( رازی۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قتل کا دعویٰ کرتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی ٰ ( علیہ السلام) کی رفعت شان کے پیش نظر یہ القاب ذکر فرمادیئے ہوں (رازی) ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک صورت بنا دی اس صورت کو سولی چڑھا یا۔ (مو ضح) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہودی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو پکڑ نے کے لیے گئے تو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا تم میں سے کون شخص اس بات پر راضی ہے کہ اسے میرا شبیہ بنا دیا جائے۔ ایک حواری اس پر راضی ہوگیا چنانچہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھالیا اور اس نو جوان کو حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شکل و صورت میں تبدیل کردیا گیا ۔یہودی آئے اور اسے سولی دیدی (ابن کثیر، ابن جریر بسند صحیح) ف10 ان اختلاف کرنے والوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یہود میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ ہم نے واقعی مسیح ( علیہ السلام) کو سولی دی اور بعض مترد دہیں اور نصاریٰٰ میں سے بعض تو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے’’ ناسوت‘‘ یعنی جسم کو سولی دی گئی اور’’ لاہوت‘‘ (خداوندی) کو اوپر اٹھالیا گیا اور بعض دونوں کی سولی کے قائل ہیں و غیرہ قرآن نے ان سب کی تکذیب کی۔ (وحیدی)