يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَكْبَرَ مِن ذَٰلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَٰلِكَ ۚ وَآتَيْنَا مُوسَىٰ سُلْطَانًا مُّبِينًا
” اہل کتاب آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے کتاب اتارلائیں۔ یقینایہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بات کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں اللہ کو بالکل سامنے دکھلاؤ تو ان کے ظلم کی وجہ سے انہیں بجلی نے پکڑ لیا، پھر انہوں نے بچھڑے کو معبودبنالیا، حالانکہ ان کے پاس واضح نشانیاں آچکی تھیں تو ہم نے ان سے درگزر کیا اور ہم نے موسیٰ کو واضح غلبہ عطا فرمایا۔“
ف 8 اس آیت میں یہو دکی دوسری جہالت کا بیان ہے اور اس سے مقصد ان کے تعنت اور جبلّی ضد وعناد کو بیان کرنا ہے۔ (کبیر) آنحضرت (ﷺ) کی رسالت پر ایمان تو لانا نہیں چاہتے تھے مگر ازراہ شرارت نت نئے شبهات وارد کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ یہود آنحضرت (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تختیاں ملی تھیں آپ (ﷺ) بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اسی طرح کی کتاب لاکر دکھائیں تاکہ ہم آپ (ﷺ) کی تصدیق کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں (ابن جریر) قرآن نے اس شبہ کے جواب میں پہلے تو ان پر الزامات عائد کئے اور پھر إِنَّآ أَوۡحَيۡنَآ الا یہ سے اس شبہ کو تحقیقی جواب دیا ہے، (کبیر) اور یہ سلسلۂ بیان آیت 107 تک چلا گیا ہے اس کے بعدİ يَٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ لَا تَغۡلُواْĬ سے نصاریٰ سے خطاب ہے۔ (فتح الر حمن) ف 9 فرمایا کہ موسی ٰ ( علیہ السلام) کتاب لائے تو تم نے اس سے بھی بڑا مطالبہ پیش کردیا یعنی یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہو۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 55) ف 1 یعنی گو انہوں نے تعنت اور عناد سے کام لیا لیکن آخر کا رمو سی ٰ ( علیہ السلام) کو سلطنت واقتدار حاصل ہوگیا اور یہ لوگ ان کے حکم کے خلاف ورزی نہ کرسکے۔ اس میں بر سبیل تنبیہ آنحضرت (ﷺ) كوبشارت دی ہے کہ آخر کار یه معاند مغلوب ہوں گے۔ اس کے بعد ان کی دوسری جہالتوں کا بیان ہے (کبیر)