وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے رب کے حضور توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے رب کے نزدیک اسی میں بہتری ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی وہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم فرمانے والا ہے
ف 6۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس کی صورت یہ تھی کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پر ستش نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جو اس جرم کے مر تکب ہوئے ہیں چنانچہ اس پر عمل شروع ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرمادیا۔ اوپر آیت 52، میں جس عفو کی خبر دی گئی ہے وہ اس قتل کے بعد کا ہے۔ ( رازی۔ قرطبی) ارتد اد کی سزا قتل ہے حدیث میں من بد لا دینہ فاقتلوہ کو جو شخص مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔ (ابو دوؤد) جب مو دی (علیہ السلام) مع ستر آدمیوں کے تورات لے کر پلٹے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہارے کہنے یہ باور نہیں کریینگے کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہوئے ہیں جب تک ہم خود اپنی خود اپنی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں اس پر وہ رجفتہ ( زلزلہ) اور بجلی کی کڑک سے بیہوش ہو کر مرگئے بھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا دے دو بارہ زندہ ہوئے۔ (ابن کثیر۔ فتح البیان) یہاں موت کی تفسیر نے ہوش سے کرنا تفیسر سلف کے خلاف ہے۔ (سلفیہ)