وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم نے جہنم پر ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی ہے اور ان کی تعداد کافروں کے لیے آزمائش بنا دی ہے۔ تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے۔ اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے۔ اور اہل کتاب اور مومن کسی شک میں نہ رہیں، اور جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے اور کفار یہ کہیں کہ اللہ نے اس مثال سے کیا حاصل کیا ہے اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جہنم کا ذکر تو محض اس لیے کیا جاتا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔
ف 6 یعنی وہ آدمی نہیں ہیں کہ آدمیوں کی کوئی بڑی سے بڑی تعداد بھی انہیں مغلوب کرسکے۔ حضرت ابن عباس(رض) فرماتے ہیں کہ جب ابوجہل نے یہ سنا کہ دوزخ کے داروغائوں کی تعداد انیس ہے تو کہنے لگا لوگو ! گواہ رہو کہ محمد (ﷺ) کے کل مددگار انیس ہیں اور تم اتنے ہو کہ تم میں سے سو آدمی بلکہ دس آدمی مل کر دوزخ کے ایک داروغہ پر غالب آجائیں گے۔ اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ (شوکانی) ف 7 یعنی جب وہ دیکھیں گے کہ اہل کتاب کی کتابیں قرآن کی تائید کر رہی ہیں تو قرآن اور پیغمبر پر ان کا ایمان مزید پختہ ہوجائے گا۔ ف 8 یعنی اس نے انیس داروغہ کیوں مقرر کئے؟… معلوم ہوا کہ اس قسم کے امور میں بحث اور نکتہ سنجی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ ف 9 یعنی اللہ تعالیٰ کی لاتعداد مخلوقات کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے۔