وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ
جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اور ان کی اولاد نہ ہو تو ترکہ میں تمہارا نصف حصہ ہے اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لیے چوتھائی حصہ ہے۔ یہ قرض کی ادائیگی اور اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو وہ وصیت کرگئی ہوں۔ اور جو تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری او لاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ قرض کی ادائیگی اور اس وصیت کے بعد جو تم کرو اور اگر مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اگر بہن، بھائی اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں۔ یہ قرض کی ادائیگی اور وصیت کے بعد ہے جو کی گئی ہو جس میں دوسروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا اور بردبارہے
ف 11 یہ بیوی کی ایک حالت ہے۔ اولاد کی عدم موجودگی میں پوتوں کا بھی یہی حکم ہے اس پر علما کا اجماع ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 1 یہ دوسری حالت ہے پھر بیوی ایک ہو یا ایک سے زیادہ سب چوتھائی یا آٹھویں حصہ میں شریک ہوں گی، اس پر علما کا اجماع ہے۔( قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2 کوئی مرد یا عورت مرجائے اور اس کا باپ اور اولاد نہ ہو تو اس کے ورثہ کو کلا لہ کہا جاتا ہے۔ کلالہ کی یہی تشریح حضرت ابو بکر (رض) حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے اور اسی کو جمہور اہل علم نے قبول کیا ہے بعض ایسی میت کو بھی کلالہ کہتے ہیں۔ (قرطبی، شوکانی) ف3بھائی بہن تین طرح کے ہوتے ہیں۔ عینی یعنی یک ماں باپ سے علاتی یعنی باپ کی طرف سے اخیافی یعنی صرف ماں کی طرف سے۔ یہاں بالا تفاق اخیافی بھائی بہن مراد ہیں جیسا کہ ایک قرات میں بھی ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 اور ان میں سے ہر ایک کو برابر حصہ ملے گا یعنی مرد کو عورت پر فضلیت نہیں ہوگی جیسا کہ آیت میں İ شُرَكَآءُ فِي ٱلثُّلُثِۚ Ĭ(کہ ا یک تہائی میں سب شریک ہوں گے )سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق حضرت عمر (رض) نے فیصلہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ ایسا فیصلہ محض اجتہاد سے نہیں ہوسکتا۔ (ابن کثیر) فائدہ :اخیافی بھائی چاراحکام میں دوسرے وارثوں سے مختلف ہیں (1) یہ صرف ماں کی جہت سے ورثہ لیتے ہیں (2) ان کے مرد عورت کو مساوی حصہ دیا جاتا ہے (3) ان کو صرف میت کے کلاله ہونے کی صورت میں حصہ ملتا ہے (4) خواہ کتنے ہی ہوں ان کا حصہ ثلث سے زیادہ نہیں ہوتا مثلا ایک میت کا شوہر۔ ماں دو اخیافی اور دوسرے عینی بھائی بھی موجود ہوں تو جمہور اہل علم کے نزدیک شوہر کو نصف ماں كوسدس ملے گا اور بقیہ تہائی حصے میں اخیافی بھائیوں کے ساتھ عینی بھائی شریک ہوں گے، حضرت عمر (رض) نے اسی قسم کے ایک مقدمہ میں یہی فیصلہ صادر رفرمایا تھا اور صحابہ (رض) میں سے حضرت عثمان (رض)، ابن مسعود، ابن عباس اور زید (رض) بن ثابت اور ائمہ میں سے امام مالک (رح) اور شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت علی (رض) اخیافی بھائیوں کو دیگر سگے بھائیوں کو عصبہ ہونے كی وجہ سے محروم قرار دیتے ہیں شوکانی نے اس دوسرے مسلک کو تر جیح دی ہے۔ ( ابن کثیر۔ فتح القدیر) ف 5 غَيۡرَ مُضَآرّٖیہ منصوب علی الحال ہے اور اس کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے۔ وصیت میں نقصان پہنچا نا ایک تو یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرے ایسی صورت میں تہائی سے زائد وصیت کا نفاذ نہیں ہوگا دوسری صورت یہ ہے کہ کسی وارث کو مزید رعایت سے زائد مال دلو ایا جائے اس کا بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ تمام ورثہ برضاورغبت اسے قبول کرلیں اور قرض میں نقصان پہنچانا یہ ہے کہ محض وارثوں کا حق تلف کرنے کے لیے مرنے ولا اپنے ذمہ کسی ایسے قرض کا اقرار کرے جو حقیقت میں اس کے ذمہ نہ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ وصیت میں نقصان پہنچا نا کبیرہ گناہ ہے جو مسند احمد میں حضرت ابوہریرة (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی ستر برس تک نیک عمل کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ظلم کرتا ہے جہنم میں چلا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ قر طبی )