سورة النسآء - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرما کر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 یعنی پوری نوع انسانی ابو ا لبشر آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اسی ایک نفس سے اللہ تعالیٰ نے اس کا جوڑا (حوا) پیدا کیا۔ بعض نے مِنۡهَاکا ترجمہ ای من جنسھا کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس سے تو لازم آتا ہے کہ نفس واحدۃ نہیں بلکہ دونفسوں سے انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی اور ظاہر ہے کہ نص قرآن کے خلاف ہے۔ (روح المعانی) اب یہ سوال کہ آدم ( علیہ السلام) سے ان کی زوج کی تخلیق کیسے ہوئی قرآن نے اسے بیان نہیں کیا اور احادیث صحیحین سے یہ تو ثابت ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور بعض روایات میں(فإنَّهنَّ خُلِقْنَ مِن ضِلَعٍ) بھی آیا ہے کہ سب عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی مگر کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت حوا ( علیہ السلام) (زوج آدم) آدم ( علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ بلکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے اور یہی تصریح چونکہ توراۃ میں بھی وارد ہے اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ روایت اہل کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پر پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کی علما نے تاویل کی ہے کہ اس سے عورت کی فطرت اور طبیعت کی طرف اشارہ ہے اور بعد میں حدیث کا تتمہ(فإنْ ذَهبتَ تُقِيمه كَسَرْتَه)سے مزید اس تاویل کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم) ف 6 اس کا عطف اللہ پر ہے ای وَٱتَّقُواْ ٱلۡأَرۡحَامَۚ یعنی قطع رحمی اور رشتے داروں کے ساتھ بد سلو کی سے بچو۔ اس کو الا رحام ِکسره میم کے ساتھ بڑھنا لحن ہے اور قواعد نحو یہ کی روسے بھی ضعیف ہے ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے یعنی قطع رحمی سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (کذافی القرطبی) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت ولغت کا اتفاق ہے کہ ارحام سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ (فتح القدیر) قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رحم عرش كے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے جو شخص مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے توڑے گا اور جو مجھے جوڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے جو ڑے گا۔ ( بخاری مسلم) ف 7 یعنی تمہارے تمام احوال واعمال کو دیکھ رہا ہے۔ (ابن جریر)