مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے اس کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے
ف 4 اوپر کی آیات میں مومنوں سے غفران ذنوب اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے حالا نکہ وہ فقر وفاقہ کی حالت میں بسر کر رے تھے ان کے بالمقابل کفار نہایت عیش وتنعم میں تھے ان کو دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جا تے لہذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ بعض مسلمانوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دشمن تو بڑی عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نہایت عسرت اور تنگی میں مبتلا ہیں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی فراء کا بیان ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں ناز ہوئی ہے (المنار) مقصد یہ ہے کہ کفار کے شہروں میں تجا رتی کا روبار ان کی خوشحالی اور مال ودولت کی فروانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں کسی قسم کا حزن وغم اور بغض نہیں آنا چاہیے نہ ان کے یاس کا شکار ہونا چاہئے اورنہ منا فقین ہی کو جو شدت و خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں۔İ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا Ĭ ۔ ( احزاب آیت 12) یعنی پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھو کے کا وعدہ کیا ہے اس سے استدلال کرنا چاہیے یہ چند روزہ زندگی کا سامان اور عارضی بہار ہے مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وه نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے اس کے مخاطب بظاہر تو آنحضرت (ﷺ) مگرمراد امت ہے (المنار۔ شوکانی) اس کے بعد اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور چونکہ کفار کے مقابلہ میں بیان کی جارہی ہے اس لیے لَكِنِکا لفظ بطور استدراک ذکر فرمادیا۔ (المنار )