أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اللہ کے بعد اب اور کون ہے ؟ جو اسے ہدایت دے کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں سیکھتے۔
ف 1 خواہش کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن جائے۔ جو دل میں آئے کر گزرے خواہ خدا کے قانون میں وہ حرام ہو......معلوم ہوا کہ ہر شخص کسی نہ کسی خدا کو پوجتا ہے اگر مالک حقیقی کا بندہ نہیں بنتا تو اپنی خواہش کا بندہ بن کر اس کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ ف 2 یعنی جو شخص اپنے نفس کو اپنا خدا بنا لے اور کسی طرح سیدھی راہ پر آنے کے لئے تیار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں بڑھتے رہنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ” جیسا کہ اس کے علم میں تھا۔“ یعنی ازل سے خدا کے علم میں تھا کہ وہ راہ راست پر آنے والا نہیں ہے اور یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ ” علم ہوتےساتی اللہ نے اسے گمراہ کردیا۔“ یعنی وہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ پتھر بے جان ہیں اور یہ کہ خواہش نفس کی پیروی سراسر گمراہی ہے پھر بھی شرک سے باز نہیں آتا اور ان پتھروں اور مٹی کے ڈھیروں (قبروں) کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ (ابن کثیر)