سورة الدخان - آیت 37

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور اس سے پہلے لوگ ہم نے ان کو اسی بنا پر تباہ کیا کیونکہ وہ مجرم تھے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 ‌تُبَّع کی قوم سے مراد یمن کی قوم سبا ہے جس کی تباہی کا حال سورۃ سبا میں گزر چکا ہے۔ ‌تُبَّع دراصل اس قوم کے قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا جیسے كسریٰ ایران کے بادشاہوں کا اور قیصر روم کے بادشاہوں کا فرعون مصر کے بادشاہوں اور نجاشی حبشہ کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ عموماً مؤرخین نے ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے پہلے بتایا ہے۔ ان میں سے ایک بادشاہ نے دنیا میں بڑی فتوحات حاصل کی تھیں اور اسی نے شہر سمر قند بسایا تھا۔ اس نے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا اور واپس یمن پہنچ کر یہودی مذہب کی تبلیغ کی۔ چنانچہ یمنی عوام نے یہ دین اختیار کرلیا اس کی وفات کے بعد پھر کافر ہوگئے۔ اسی بادشاہ کے متعلق امام احمد اور طبرانی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :” تبع کو گالی نہ دو اس لئے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا۔“ (ابن کثیر مختصراً) ف 9 جیسے عاد اور ثمود اور فرعون کی قوم ۔ ف 10 مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے ان قوموں کو ان کی سرکشی کی وجہ سے تباہ کردیا حالانکہ وہ خوشحالی اور شان و شوکت میں تم سے کہیں بڑھ چڑھ کے تھے تو تمہیں تباہ کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے۔