ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو پر سکون نیند آنے لگی۔ کچھ لوگ جنہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت پر مبنی بدگمانیاں کر رہے تھے اور کہتے تھے کیا ہمیں کسی چیز کا اختیار نہیں؟ آپ فرما دیجئے کہ ہر کام پورے کا پورا اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں چھپا رہے تھے جس کو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کاش! ہمارے لیے کوئی اختیار ہوتا تو ہم اس جگہ قتل نہ کیے جاتے۔ آپ فرمادیں کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو جن پر قتل ہونا لکھا ہوا تھا وہ اپنے مقتل کی طرف چلے آتے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو آزمانا اور پاک کرنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے
ف 7 اس طائفہ سے مراد پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ یعنی ان پر امن واطمینان کی کیفیت طاری کردی اور ان کو اونگھ آنے لگی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) کا بیان ہے کہ اونگھ سے میری کیفیت یہ تھی کہ باربار تلوار میرے ہاتھ سے گرتی اور بڑی مشکل سے اس پر قابو پاتا۔ ( ابن کثیر) ف8 اس طائفہ سے منا فق اور ضعیف الایمان قسم کے لوگ مراد ہیں جو محض مال غنیمت کے لالچ میں لٹرنےنکلے تھے۔ (قرطبی) ظَنَّ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِ یہغَيۡرَ ٱلۡحَقِّ سے بدل ہے یعنی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اسلام اور اس کے حا ملین بس اب ہلاک ہوگئے۔ مسلمانوں کی کبھی مدد نہ ہوگی اور نہ یہ دعوت حق پر وان چڑھیگی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ف9یہ جملہ يَظُنُّونَسے بدل ہے اور مِنَ ٱلۡأَمۡرِ سے مراد فتح اور نصرت ہے یعنی بالکل مایو سی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کردیا کی ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہوگی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا یہ کہ ہمیں تو مجبورا ساتھ دینا پڑا ور نہ ہم تو باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہ تھے۔ بعض نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چاہا سو کیا ہمارا اس میں کیا اختیار ہے۔ (فتح القدیر۔ وحیدی) ف 10 یعنی نفافق اور مسلمانوں کی بد خو اہی۔ (وحید ی) ف 11 شاہ صاحب کے ترجمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ہماری یہ بات مان لی جاتی کہ شہر کے اندررہ کر ہی جنگ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی کہ جو جنگ میں شریک تھے جیسا کہ حضرت زبیر (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے معتب بن قشیر (منافق) سے اس قسم کے کلمات سنے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو ابن ابیّ کے ساتھ مد ینہ کو لوٹ آئے تھے۔ اس صورت میں هَٰهُنَاکا اشارہ قریب’’ معرکہ احد ‘‘کی طرف ہوگا۔ (قرطبی۔ شوکانی) ف 12 اس سے ان کے خیال کی تردید مقصود ہے یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ صرف اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے وہیں مارے جاتے کیونکہ قضا الہی سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ (شوکانی ) ف 1 یہ جملہ محذوف کی علت ہے یعنی جنگ احد میں جوکچھ ہو اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے اس سے مقصود یہ تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہوجائے اور تمہارے دل وسا وس سے پاک ہوجائیں یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آٗئے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ احد کی لڑائی بگڑ نے سے یہ سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ (وحیدی)