وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا کوئی جاندار نہیں مر سکتامقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے۔ دنیا چاہنے والے کو ہم دنیا دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والے کو ہم آخرت کا ثواب دیں گے اور شکر گزاروں کو ہم بہت جلد بدلہ دیں گے
ف 1 جب منافقین نے یہ افواہ اڑائی کہ محمد (ﷺ) قتل ہوگئے اب اپنا آبائی دین اختیار کرلو یا صحابہ (رض) کرام جب جنگ احد سے واپس آئے اور ان میں سے کچھ صحابہ شہید ہوچکے تھے تو منافقین نے کہا İ لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْاۚĬکہ اگر وہ مدینہ میں رہتے قتل نہ ہوتے۔ پس اس قسم کے شبہات کو رفع کرنے کے لئے یہ بات نازل ہوئی (کبیر) اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھار نا اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا نا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنچہ سے نجات نہیں پا سکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے جس میں تقدم تاخر نہیں ہوسکتا۔ پس اذن بمعنی علم ہے یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں مقدر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اذن بمعنی قضا وقدر کے ہو۔ الغرض تمہیں چاہیے کہ موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بے جگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے ورنہ اگر تم صرف دنیا کا ثواب۔ شہرت اور مال غنیمت وغیرہ۔ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر۔ اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں كِتَابًا مُّؤَجَّلٗا سے مراد وہ کتاب ہے جو آجال پر مشتمل ہے بعض نے لوح محفوظ مراد لیا ہے احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : (اكْتُبْ، فَكَتَبَ مَا هُوَ كَائِنٌ) کہ لکھ دے پس قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا سب لکھ دیا۔، آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے لوگ اپنی نیتوں کے اعتبار سے دو قسم کے تھے۔ بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے، یہ آیت گو خاص طور پر جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے خاص ہے اور تمام اعمال صالحہ کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے (کبیر) معلوم ہوا ہے کہ مقتول بھی اپنی اجل سے مرتا ہے اور اجل میں تغیر ممتنع ہے۔