وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔
ف 1 کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ کو نافذ ہونے سے روک سکے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کرسکے۔ ف 2 یعنی اس طرح کہ دل میں کوئی بات ڈال دے یا خواب میں کچھ دکھا دے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو خواب دکھایا گیا۔ (الصافات :103، یوسف 4) ایک حدیث میں ہے کہ ” روح القدس ( جبریل ( علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی جان اس وقت تک نہ جائے گی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرے اور اس کی لکھی ہوئی اجل نہ آجائے اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آنے کی ابتداسچے خوابوں سے ہوئی۔ (ابن کثیر)۔ ف 3 یعنی اس طرح کہ بندہ آواز سنے مگر بولنے والانظر نہ آئے، جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طورکے دامن میں ایک درخت سے آواز سنائی دی مگر بولنے والا( اللہ تعالیٰ) ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ (طہٰ 11، 48 النمل :8، 12 قصص، 30، 35) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام ہوئے ہیں پردہ کے پیچھے سے “۔ (موضح) ف 4 یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جو انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ تمام آسمانی کتابیں انبیاء علیہم السلام تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرئی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) دحیہ کلبی کی شکل میں آئے اور ایک مرتبہ ایک اعرابی کی شکل میں آئے اور امور ایمان کے متعلق سوال کیا جن کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ) بہر حال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا احصاء مذکور نہیں ہے۔ الا بتکلف واللہ اعلم۔