وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اپنے آپس کے معاملات میں مشورے سے چلتے ہیں ہم نے انہیں جو کچھ بھی رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
ف 6 یعنی وہ اپنے تمام اجتماعی، سیاسی مسائل آپس کے صلاح و مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اس چیز کو اسلامی نظام اجتماعی کی ہم امتیازی خصوصیت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ آل عمران ( آیت 159) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام منصوصہ کے سوا ہر قسم کے مصالح ملکی کے بارے میں صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے اور ان کے مشورے قبول فرمایا کرتے تھے اور بعد میں خلافت راشدہ کی بنیاد ہی شوری پر رکھی گئی اور حضرت ابو بکر (رض) کا انتخاب بھی اسی اصل کے تحت ہوا۔ موجود دور کی جمہوریت اور اسلامی شورائی نظام میں اہم بنیادی فرق یہ ہے کہ جدید جمہوریت میں نمائندگان جمہور قانون سازی کے غیر محدود اختیارات رکھتے ہیں، لیکن اسلام میں کتاب و سنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کو مشاورت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی امر کے متعلق کتاب و سنت کا فیصلہ نہ ملتا ہو تو پھر پیش آمدہ اجتماعی امور میں ” مجلس مش اور ت“ مجاز ہے کہ کوئی فیصلہ کرے۔ ف 7 یعنی فرض زکوٰۃ اور نفلی صدقات ادا کرتے ہیں۔