شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرو یہی بات مشرکین کو سخت ناگوار ہے جس کی طرف اے محمد تم انہیں دعوت دے رہے ہو، اللہ جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسے دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے
ف 10 یعنی دین ” اسلام“ یا ” توحید“ جس کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رے ہیں، کوئی نیادین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جس کا حکم نوح ( علیہ السلام)، ابراہیم ( علیہ السلام)، موسیٰ ( علیہ السلام)، عیسیٰ ( علیہ السلام) اور پچھلے تمام پیغمبروں ( علیہ السلام) کو دیا گیا تھا۔ یہ تمام پیغمبر ( علیہ السلام) اصول عقائد میں متفق تھے اور لوگوں کو انہی چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے جن پر ایمان لانے کی دعوت آج محمدﷺ دے رہے ہیں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی ہے اس کے قائم کرنے کے طریق ہر وقت ( یعنی زمانہ) میں جدا ٹھہر دیئے ہیں اللہ نے اور انہی طرق کو شرائع کیا جاتا ہے۔ ف 11 یا دین کو قائم کرو لفظ اقیمو الدین کے یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے دونوں پر مامور ہوتے ہیں۔ ف 12 دین میں پھوٹ ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض باتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے یا ان کی من مانی تاویل کی جائے۔ ف 13 یا توحید اور اپنے دین میں داخلہ کیلئے چن لیتا ہے۔ ف 14 یعنی اسے اپنے قرب اور نیک عمل کی توفیق دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی توفیق و ہدایت پانے کیلئے اس کی طرف دل سے رجوع ہونا ضروری ہے۔