سورة آل عمران - آیت 135

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام یا اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ اور کون ہے اللہ تعالیٰ کے سوا گناہوں کو بخشنے والا؟ اور وہ لوگ اپنے کیے ہوئے پر جانتے ہوئے اڑتے نہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 یعنی اگر بشری تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہےتو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ واستغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالی ٰسے معافی چاہتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا: جب کوئی بندہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہےاور اس پر مؤاخذہ کر سکتا ہے (فرشتوں گواہ رہو)میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا۔ (ابن کثیر) ف 7’ اصرار‘‘ کے معنی ہیں اڑجانا اور لا پر وائی سے گناہ کرتے جا نا اور ان پر ندامت کا اظہار نہ کرنا اورنہ تو بہ ہی کرنا ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے(مَا ‌أَصَرَّ ‌مَنِ ‌اسْتَغْفَرَ، وَإِنْ عَادَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةٍ)کے سچے دل سے توبہ واستغفار کے بعد اگر کسی شخص سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے مصر نہیں کہا جائے گا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) İوَهُمۡ يَعۡلَمُونَĬیعنی وہ جانتے ہیں کہ جو شخص توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔( ابن کثیر)