سورة آل عمران - آیت 133

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی (وسعت) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یعنی جس طرح سود خوار کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے اسی طرح تابعدار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق عر ضھا السموات والا رض فرماکر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ اگر جنت کا عرض آسمان کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ رات چھا جائے تودن کہا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو آپ ﷺ نے فرمایا یہی حال دوزخ کا ہے۔ یعنی تکون حیث شاہ اللہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک جانب رات ہوتی ہے اور دوسری جانب دن ہوتا ہے یہی حال جنت دوزخ کا ہے اس سوال کا یہی جواب حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ان پر بلا کیف ایمان رکھان ضروری ہے خواہ ہمارے عقل وذہن کی رسائی ان تک نہ ہو اور یہی نہیں بلکہ جملہ امور آخرت کا یہی حال ہے۔