سورة غافر - آیت 78

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی تجھ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں۔ جن میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے۔ کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے۔ جب اللہ کا حکم آیا تو حق کے مطابق فیصلہ کردیا گیا اور اس وقت باطل پرست خسارے میں پڑ گئے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 12 یعنی بعض کا تفصیلی حال بیان کیا اور بعض کا نہیں کیا۔ بہر حال سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ یعنی‌لَمْ ‌نَقْصُصْان پیغمبروں (علیهم السلام) سے کئی گنا کثیر تعداد میں ہیں جن کے احوال قرآن میں مذکور ہیں۔ جیساکہ سورۃ نساء( آیت 64) میں اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ ( واللہ الحمد والمنہ) کسی قوم کے کسی قدیم رہنماء کے متعلق ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہو کر گزرے ہیں) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ نبی نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کردیاهو۔ ف 13 مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبه کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب چاہا اسے دکھا دیا۔ بلکہ اسکی حیثیت دو ٹوک فیصلے کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی جب چاہتا ہے اسے اپنے کسی نبی (علیه السلام) کے ہاتھ سے دکھواتا ہے اور جب تک نہیں چاہتانہیں دکھواتا۔ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد مومنوں کی نجات اور باطل پرستوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔۔ یہ کفار مکہ کے اس مطالبہ کا جواب ہے جو وہ نبی ﷺ سے معجزہ دکھانے کیلئے آئے دن کرتے رہتے تھے۔