سورة غافر - آیت 60

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھے ہی پکارو میں ہی تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ تکبر کرتے ہوئے میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ضرور ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 11 دعا کے اصل معنی پکارنا ہیں۔ قرآن میں عموماً عبادت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (الدُّعُاءَ ‌هُوَ ‌الْعِبَادَةُ) کہ دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ بعض روایات میں دعا کو (‌أَفْضَلُ ‌الْعِبَادَةِ) یا (‌مُخُّ ‌العِبَادَةِ) بھی فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرنا دراصل اپنی عبودیت کا اقرار کرنا ہے اور حدیث میں ہے جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف 12 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ ( موضح)