فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ
جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔
ف ٧(فَظَهَرَ صَبْرُهُمَا) ( تو ان دونوں کا صبر ظاہر ہوگیا) یہ عبارت محذوف ہے جو ( لما) کا جواب ہے۔ حضرت ابراہیم نے بیٹے کو اوندھا اس لئے لٹایا کہ ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ کر کہیں رقت اور ہاتھ میں لرزش پیدانہ ہوجائے۔ عموماً مفسرین نے ” لِلْجَبِينِ “ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے اور اس سلسلہ میں بعض آثار بھی نقل کیے ہیں کہ حضرت اسماعیل نے اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس طریق سے ذبح کرنے کی وصیت کی۔ ممکن ہے حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے اپنے باپ سے یہ باتیں بطور احتیاط کہہ دی ہوں مگر آیت سے یہ مفہوم اخذ کرنا بعید ہے کیونکہ لفظ ” جبین“ کا معنی جبھۃ(ماتھا) کی ایک جانب کے آتے ہیں۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو لٹالیا جیسا کہ ذبح کے وقت جانور کو لٹایا جاتا ہے قتاوہ (رح) سے منقول ہے ( ای كَبَّهُ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ إِلَى الْقِبْلَةِ) یعنی ان کو پچھاڑ کر ان کا چہرہ قبلہ کی طرف کردیا۔ اس سے اس مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے۔۔۔ پھر یہ واقعہ وادی’’ منٰی ‘‘میں صخرہ کے قریب پیش آیا۔ بعض نے لکھا ہے کہ’’ منحر‘‘ کا واقعہ ہے جس جگہ آج کل قربانی ذبح کی جاتی ہے واللہ اعلم۔ ( قرطبی، روح)