قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اے نبی انہیں بتلائیں کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے تھوڑا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کردیتے ہو وہ اس کا بدلہ دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
ف 5 یعنی رزق کی تنگی اور فراخی، عزت اور بے عزتی کا معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ کامیابی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اسے دنیا میں قناعت اور بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ ( ابن کثیر) ف 6 خرچ سے مراد ایسا خرچ ہے جس میں نہ اسراف ہو اور نہ بخل۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ) بندے خرچ کر، ہیں تجھ پر خرچ کرونگا۔ دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے۔ (اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا) اور دوسرا کہتا ہے (اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا) کہ اے اللہ بخل کرنے والے کے مال کو ہلاک کر اور خرچ کرنے والے کو اسکا بدل عطا فرما۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (أَنْفِقْ بِلَالًا وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالَا) (ابن کثیر)