مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک سو مسلمان تھے اور نہ ہی وہ مشرکین میں سے تھے
ف 1 اس آیت اشارہ ہے کہ یہود ونصایٰ اپنے آپ کو اہل کتاب کہلواتے ہیں مگر درحقیقت وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے اپنے مشائخ اور علما کو خدا بنا رکھا ہے اور حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ (وحیدی) مطلب یہ کہ اگر تم اس معنی میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو یہود یا نصرانی کہتے ہو کہ ان کی شریعت سے ملتی چلتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ شریعت محمدی کو شریعت ابراہیمی سے زیادہ منا سب ہے۔ تو اس اعتبار سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا تم سے زیادہ حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے اسے طریق پر تھے۔ (وحیدی)