ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے، اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور ساتھی ہیں۔ نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے۔ جسے تم دل کے ارادہ سے کرتے ہو اللہ درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
ف ٦ چنانچہ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید (رض) سے فرمایا ” انت زید بن حارثہ بن شراجیل“ کہ تم حارثہ کے بیٹے زید (رض) ہو۔ حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے کو کسی دوسرے کی طرف بیٹا ہونے کی حیثیت سے منسوب کیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ہاں تكریم و محبت کے طور پر کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جاسکتا ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس (رض) کو يَا بُنَيَّ کہہ کر پکارا (ابن کثیر) ف 7یعنی انہیں بھائی یا دوست کہہ کر پکارو، چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر حضرت زید (رض) سے فرمایا : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلانَا ( ابن کثیر) ف 8 یعنی غلطی سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ کر پکار لیا تو کچھ ہرج نہیں۔