سورة القصص - آیت 85

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں بہترین مقام تک پہنچانے والا ہے۔ ان لوگوں سے فرما دو کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت کے ساتھ کون آیا ہے اور کھلی گمراہی میں کون مبتلا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

11۔ یا ” جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کے احکام و فرامین پر عمل کرنافرض کیا۔ اس کے یہ دونوں مطلب مفسرین (رح) نے بیان کئے ہیں۔ (شوکانی) 12۔ مراد ہے مکہ کی طرف۔ اکثر مفسرین (رح) نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جب نبیﷺ مکہ سے نکل کر حجفہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں مکہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (شوکانی) اس میں فتح مکہ کی خوشخبری دی ہے۔ (قرطبی) یہ آیت اتری ہجرت کے وقت۔ یہ تسلی فرمائی کہ پھر مکہ آئو گے سو خوب طرح آئے پورے غالب ہو کر۔ (موضح) بعض نے ” معاد“ سے مراد موت اور بعض نے جنت لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر ” آخرت“ سے بھی کی ہے۔ دراصل فتح مکہ ہی قرب موت کی علامت تھی جیسا کہ سورۃ ” اذا جاء نصر اللہ الخ“ کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے مکہ کی طرف لوٹنا موت سے کنایہ ہوسکتا ہے اور موت ذریعہ ہے عالم آخرت میں پہنچنے کا، جس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کے اعلیٰ مقام میں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا ان اقوال میں اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 13۔ یہ دراصل کفار مکہ کا جواب ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” انک فی ضلال“ کہتے تھے۔