سورة القصص - آیت 68

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آپ کا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اس انتخاب کا لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بہت بلند و بالا تر ہے شرک سے جو لوگ کرتے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف12۔” یا جو چاہتا ہے اختیار کرتا ہے“۔ جیسے فرمایا İ لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَĬ ۔ (انبیاء :23) یا ” جن کو چاہتا ہے (اپنے دین کی مدد کے لئے) پسند فرما لیتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو چن لیا اور ان میں سے پھر چار (خلفاء اربعہ) کو خاص طور پر منتخب کرلیا جیسا کہ حضرت جابر (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ہے۔ (قرطبی) ف13۔ کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام کرسکیں بلکہ خود بندے اور ان کے سب کام خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ البتہ ظاہر میں بندوں کو ایک طرح مختار بنایا گیا ہے جس پر ثواب و عقاب کا مدار ہے۔ لیکن پھر بھی تکوینی طور پر سب اللہ کی قضا و قدر کے سامنے مجبور ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہی ہے نہ وہ جبری ہیں کہ بندے کو مجبور محض کہیں اور نہ قدری کہ بندے کو کلی مختار سمجھیں۔ نبیﷺ نے اس مسئلہ میں بحث کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور پہلی بدعت جو مسلمانوں میں ظاہر ہوئی اسی مسئلہ میں بحث تھی۔ (وحیدی بتصرف) یا مطلب یہ ہے کہ بندے اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ مخلوق اور پھر بنی نوع انسان میں کسی شخص کو ممتاز بنانا اور اسے کسی منصب پر فائز کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ سیاق کے اعتبار سے یہی معنی اقرب ہیں۔ ف1۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانہ قدرت میں کسی بندے کو چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو کوئی اختیار نہیں ہے یہ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔