إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
” حقیقی مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے لیے رسول کے پاس ہوں تو آپ سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ اے نبی جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں۔ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے اجازت مانگیں توجسےچاہیں آپ جازت دیں اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کریں، اللہ یقیناً غفورورحیم ہے۔“
ف5۔ جماعتی نظم میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اب بھی مسلمانوں کو اس کا التزام کرنا چاہئے۔ (شوکانی) ف6۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عذر کی بنا پر اگرچہ اجازت لے کر جانا جائز ہے مگر پھر بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ یہ دنیا کی ضرورت کو دین پر مقدم رکھنا ہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ کو ایسے لوگوں کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ کذا فی الوحیدی (شوکانی)