سورة النور - آیت 30

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے نبی ! مومن مردوں سے فرمایں کہ اپنی نظریں بچاکررکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ (٣٠)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

6۔ یعنی کسی ایسی چیز کی طرف نہ دیکھیں جس کی طرف دیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ سلف (رح) کا قول ہے کہ نظر ایک زہریلا تیر ہے جس کا نشانہ انسان ہی بنتا ہے اور اگر بلا ارادہ کسی پر نگاہ پڑجائے تو نگاہ پھیر لیں۔ صحیحین میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :”……دیکھنا (یعنی کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا) آنکھ کا زنا ہے۔ نفس تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی (عملاً) تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ نیز سنن میں حضرت بریدہ (رض) سے سروایت ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ پہلی نظر تو معاف ہے اور دوسری معاف نہیں۔ (شوکانی) 7۔ یعنی زنا سے حفاظت کریں اور نہ اپنا ستر ہی اس شخص پر کھولیں جس کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے اس لئے ستر کی حفاظت کے ساتھ نظر کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ حدیث میں ہے احفظ عورتک الا من زوجتاء اوما ملکیت یمینک بیوی اور لونڈی کے سوا سب سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ آدمی کے لئے ناف اور گھٹنوں تک کا حصہ شرمگاہ میں شامل ہے جس کا ڈھانپنا فرض ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرت بریدہ (رض) کی رانیں کھلی دیکھیں تو فرمایا : اپنی رانیں ڈھانپ لو، اس لئے کہ رانیں شرمگاہ کا حصہ ہیں۔ البتہ کسی عذر سے ران کا کھولنا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن آنحضرتﷺ نے اپنی ران کھولی۔ (ابن کثیر)