فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ
پھرجونہی صور پھونک دیا گیا۔ ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے کچھ پوچھ سکیں گے۔“ (١٠١)
3۔ یعنی وہ اپنے رشتے ناتوں پر فخر نہ کریں گے یا رشتے ناتے کچھ فائدہ نہ دے سکیں گے۔ حدیث میں ہے : کل نسب و سبب منقطع الائسبی و سببی۔ کہ میرے نسب اور تعلق کے بغیر سب تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ اس حدیث کی بنا پر حضرت عمر (رض) نے ام کلثوم (رض) بنت علی (رض) بن ابی طالب سے چالیس ہزار مہر کے بدلے نکاح کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب اس عموم سے مستثنیٰ ہے (ابن کثیر) 4۔ دوسری آیت میں ہے : وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ (صافات :27) مگر قیامت کے دن مختلف مواقف ہونگے اور ان میں مختلف حالتیں ہوں گی۔ کسی حالت میں ایک دوسرے سے سوال کرینگے اور کسی میں نہیں کرینگے۔ لہٰذا ان آیات میں تعارض نہیں ہے۔ (شوکانی)