سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے نہ گوشت پہنچتے ہیں نہ خون اسے تمہاری پرہیزگاری درکارہے اس نے جانوروں کو تمہارے لیے اس لیے مسخر کیا ہے تاکہ اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اس کی بڑائی بیان کرو اور اے نبی نیک لوگوں کو خوشخبری دیجیے۔“ (٣٧)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

9۔ یعنی قربانی میں اصل چیز جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ تمہارے دلوں کا خلوص اور تقویٰ ہے۔ اگر خلوص نیت سے قربانی کرو گے تو تمہارا نذرانہ خدا کے حضور قبولیت حاصل کرلے گا ورنہ خون اور گوشت کی خدا کو کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اسی بات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے (ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم و لکن ینظر الی قلوبکم۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم عن ابی ہریرۃ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکین قربانی کر کے اس کا خون کعبہ پر چھڑکتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی ایسا کرنا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) 10۔ یہا تکبر یعنی ” اللہ اکبر“ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اور اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ” بسم اللہ واللہ اکبر“ کہنامطلوب الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) دونوں کو جمع کرتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دو جانور (دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے وقت پہلے دعا پڑھی اور پھر بسم اللہ واللہ اکبر“ پڑھ کر ان کو ذبح کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)