اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور کفارکے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے
ف 4 قرآن پاک میں جہاں بھی ظلمات اور نور کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے ماسوائے آیت سورت الانعام İ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَĬ کے کہ یہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (کبیر) اس آیت میں نور کا لفظ بصیغہ واحد اورظلمات کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمیشہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر وشرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں ہے اور وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفرکی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہوتا ہے مگر یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ جو شخص ابتدا سے ہی مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا مثلا قرآن میں ہے İ لَمَّآ ءَامَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ ٱلْخِزْىِ Ĭ(یونس 18) حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہو اتھا اسی طرح فرمایا :İ وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ Ĭ( النحل : ٧٠) حالانکہ وہ کبھی پہلے ارذل العمر میں تھے جس کی طرف وہ دوبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے آنحضرت (ﷺ) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا اشھد ان محمد ارسول اللہ تو آپ (ﷺ)نے فرمایا (خرج من النار )(یہ شخص آگ سے نکل آیا) حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا İ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍۢ لَّا يُؤْمِنُونَ Ĭ۔ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے حا لانکہ یوسف (علیہ السلام) کبھی بھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض قرآن و حدیث میں اس قسم کے محاور ات بکثرت مذکور ہیں۔ خوب سمجھ لو (کبیر) ف 5 یعنی یہ کافر اور انکے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے دیکھئے بقرہ 24۔ الا نبیاء 98۔ (کبیر، ابن کثیر )