سورة البقرة - آیت 254

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! ہم نے جو کچھ تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو۔ اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں تجارت ہے اور نہ دوستی اور نہ شفاعت جبکہ انکار کرنے والے ہی ظالم ہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6 انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان ومال کی قربانی ہے اور عموما شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلےİ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهĬ فرماکر جہاد کا حکم دیا اور آیتİ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَĬ " سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اس کے بعد قصہ طالوت سے پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت میں دوسرے امر کو مؤکد کرنے کے لیے دوبارہ صرف مال کا حکم دیا۔ (کبیر) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا لہذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ وخیرات ایسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی مودت نسبی تعلق، شفاعت وغیرہ یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوة کا منکر کافر ہے چنانچہ آنحضرت (ﷺ) کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر الصدیق (رض) نے منکرین زکوة سے جہاد کیا جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی )